خیال یہی کیا جاتا ہے کہ نشہ وہ چیز یا عمل ہے جو انسان کو اپنے حواس سے بیگانہ کر دے اور جاگتی حالت میں اسے نیم خوابیدہ یا خمار آلود کیفیت میں مبتلا کر دے، لیکن طبی نقطہ نگاہ سے نشے کی تعریف کچھ اور ہے۔ کسی کام کو بار بار ایک خاص تسلسل کے ساتھ اس طرح دہرایا جائے کہ وہ عادت ثانیہ بن جائے اور اسے کئے بغیر چین نہ ملے تو وہ نشے یا لت کے زمرے میں آتا ہے۔ ورزش یا کسرت بھی طبی ماہرین کے نزدیک ایک لت ہے مگر اس لت کے فوائد بہت ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر اسے ایک اچھا اور مستحسن نشہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اب سے کوئی چالیس سال قبل میرے گھر کے سامنے ایک پہلوان صاحب رہا کرتے تھے۔ ان کی بیٹھک میں اور بھی بہت سے لوگ جمع رہتے تھے میں دیکھتا تھا کہ تقریباً سارا دن پہلوان صاحب کراہتے رہتے تھے لیکن مجھے حیرت ہوتی تھی کہ شام ہوتے ہوتے ان کے چہرے پر بشاشت آجاتی تھی اور جب وہ اپنے اکھاڑے میں جانے کے لئے نکلتے تو بالکل چاق وچوبند ہوتے تھے اور دوسرے لوگوں کی طرح تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے جایا کرتے تھے۔ یوں لگتا جیسے وہ نشے میں سرشار جا رہے ہوں۔ میری وہ حیرت اب بھی قائم ہے اور میرے لئے اب بھی یہ سوال تشنہ جواب ہے کہ کیا ورزش بھی دیگر نشیلی دواﺅں کی طرح نشہ یا لت کا سبب ہو سکتی ہے یعنی ورزش کے بھی لوگ نشئی یا لتی (Addict) ہو سکتے ہیں۔
پہلے اس پر توجہ کرنی ضروری ہے کہ لت (Addict) ہے کیا؟ ادویاتی لت کا تکنیکی یا طبی نقطہ نظر سے مفہوم یہ ہے کہ کسی دوا کو بار بار استعمال کیا جائے یہاں تک کہ وہ عادت بن جائے اور اس کا اثر دماغ پر اس شے کی لت اور اس شخص کو اس کا لتی کہتے ہیں۔ تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر دوا کے لتی لوگوں کی کیفیت یکساں ہی ہو۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی قوت برداشت عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو مطلوبہ شے یا مخصوص نشہ حاصل کرنے کے لئے زیادہ مقدارکی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح دیگر ادویات، نشیلی اور عادت یا لت پڑنے والی اشیاءکا یہی معاملہ ہے جن کو عرف عام میں نشہ آور کہا جاتا ہے اور جن کے استعمال کے لوگ جلد ہی عادی بن جاتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی انہیں استعمال کرنے والے لوگوں کے فعلیاتی نظام میں ان اشیاءیا ادویات کی مقدار ایک خاص سطح سے کم ہوتی ہے تو پھر اس حالت میں رہنا یا برداشت کرنا ان کے لئے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ دورے سے پڑنے لگتے ہیں اور یہ کیفیت بڑھتے بڑھتے ناقابل برداشت اور تکلیف دہ ہوجاتی ہے۔
آج کل طب میں لت کی اصطلاح اگرچہ متروک ہوچکی ہے مگر عام لوگوں میں اب بھی اتنی ہی معروف ہے۔ اب زیادہ تر لوگ یہ جاننے لگے ہیں کہ نشے کی لت یا عادت کیا ہوتی ہے؟ اور لتی لوگ کیسے ہوتے ہیں؟ حالانکہ سائنسی ادب میں یہ اصطلاح ان دیگر افعال کے بارے میں بھی استعمال کی جاتی ہے جن کے استعمال کے لوگ عادی ہو جاتے ہیں اور ان کے بغیر وہ شدید بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ ورزش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جو لوگ ورزش کے عادی ہو جاتے ہیں وہ اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اگر کبھی چھوڑ دیں تو شراب یا دیگر نشہ آور ادویات کے عادی افراد کی کیفیت کی طرح شدید بے چینی محسوس کرتے ہیں، کم خوابی کا شکار ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی تو تشنجی کیفیت اور دوروں سے بھی دو چار ہوتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں امریکا، جاپان اور خود پاکستان وبھارت میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ”سائیکلوجی ان رننگ“ (Psychology in Running) کے مصنف ایم ایچ ساکس (M.H. Sacks) کا کہنا ہے کہ صرف امریکہ میں پچیس لاکھ افراد باقاعدگی سے آہستہ آہستہ دوڑ لگاتے یا جاگنگ کرتے ہیں مگر گزشتہ دو برسوں کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ یہ ایک طرح کی انفرادی ورزش تھی جبکہ اب اجتماعی ورزش کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ ورزش بھی لت کے طور پر ہی ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ورزش یا کسرت بھی ایک طرح کی مثبت لت (Positive Addiction) اور منفی لت (Negative Addiction) ہے حالانکہ لت کے ساتھ مثبت ترکیب کسی طرح بھی مناسب نہیں لگتی کیونکہ عام طور پرلت کو منفی عادت ہی کہا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے دوا پر انحصار اور اس کی عادت کی تعریف اس طرح کی ہے کہ دوا کا استعمال فرد پر بھی خراب اثر ڈالتا ہے اور معاشرے پر بھی اسی لئے شاید کسرت کا منفی پہلو بھی اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔
امریکہ کے مشہور ماہر امراض قلب جارج شیہان (George Sheehan) نے جو کہ نیوجرسی میں ریوربینک ہسپتال میں کام کرتے ہیں اور خود بھی دوڑنے کے بڑے شائق ہیں، سب سے پہلے اس امکان کا اظہار کیا کہ دوڑنا بھی لت کی تعریف میں آسکتا ہے مگر لاس اینجلس کے ولیم گلاسر (William Glasser) نے تو دوڑنے کو مکمل لت ہی قرار دیدیا۔ اس سلسلے کے تجربات ومشاہدات کے بعد ان کا کہنا ہے کہ مسلسل دوڑنے کے عمل سے غور وفکر کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ فرد کی فعلیاتی اور نفسیاتی کیفیت بھی بہت بہتر ہو جاتی ہے جبکہ کسی نشہ آور دوا کا بار بار کا استعمال فرد کو دونوں طریقوں سے کمزور کر دیتا ہے اور فرد کی کام کرنے کی صلاحیت، اپنی ذات پر اعتماد اور عزت نفس سب ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر منفی لت ابتداءمیں تو بہت خوشگوار لگتی ہے مگر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اس کے نقصانات واضح ہونے لگتے ہیں۔ اس کے برخلاف مثبت لت ابتداءہی سے خوشگوار ہوتی ہے اور اس کے بہتر اور خوشگوار اثرات بتدریج ظاہر ہوتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 837
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں